وہ اک روش سے کھولے ہوئے بال ہوگیا سنبل چمن کا مفت میں پامال ہوگیا کیا امتدادِ مدتِ ہجراں بیاں کروں ساعت ہوئی قیامت و مہ سال ہوگیا دعویٰ کیا تھا گل نے ترے رخ سے باغ میں سیلی لگی صبا کی تو منہ لال ہوگیا قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...